کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالی کے محتاج ہیں؟
KYA HUZOOR ﷺ KHUDAYE TA,AALA KE MUHTAAJ HAI?
क्या हूज़ूर ﷺ खुदा-ऐ-तआला के मुहताज हैं?
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلے ھذا میں کہ
ایک عالم صاحب قبلہ قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سب انسان اللہ تعالی کے محتاج ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالی کے محتاج ہیں اسی دوران ایک صاحب کھڑے ہو کر یہ کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کا محتاج نہیں کہنا چاہیے آیا کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے محتاج ہیں؟
اگر ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے محتاج کا لفظ استعمال کرنا کیسا ہے؟
قرآن و احادیث کی روشنی میں مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں کرم نوازش ہو گی
(سائل:مولانا افضل علی دہلوی)
الجواب
واقعی میں یہ بات صحیح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالی کے محتاج ہیں۔لیکن
عرف عام میں محتاج استخفاف کے لیے بولا جاتا ہے، اس لیے بلا ضرورت خواہ مخواہ خواص و عوام الناس میں یہ کہتے یوئے پھرنا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محتاج ہیں۔ سخت نا پسندیدہ ہے ۔ اگر بہ نیت استخفاف ہو تو کفر۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ۔
یعنی:اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج اور اللہ ہی بےنیاز ہے سب خوبیوں سراہا،
(قرآن مجید،پ:۲۲،آیت:۱۵،سورۃ فاطر)
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے۔
وَ اللّٰہُ الۡغَنِیُّ وَ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ۔
یعنی:اور اللہ بےنیاز ہےاور تم سب محتاج۔
(قرآن مجید،پ:۲۶،آیت:۳۸،سورۃ محمد)
اَللّٰهُ الصَّمَدُ۔
یعنی:اللہ بے نیاز ہے۔
(قرآن مجید،پ:۳۰،آیت:۲،سورۃ اخلاص)
وفي ’’ منح الروض الأزہر ‘‘ في ’’ شرح الفقہ الأکبر ‘‘ ، ص۱۴: { اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ (۲) } أي :
المستغنيعن کل أحد والمحتاج إلیہ کلُّ أحد ۔
وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔
صدر الافاضل حضرت العلام مولانا مفتی محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
تعالیٰ جل وعلا سبحانہٗ تعالیٰ ضرورت سے پاک ہے اسے کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں وہ سب سے بے نیاز ہے۔
(فتاوی صدر الافاضل،ص:۱۰۰)
شارح بخاری فقیہ اعظم ہند حضرت العلام مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ کیا سب انسان باری تعالی کی طرف فقیر ہیں یا نہیں اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
بے شک سب انسان اللہ عزوجل کے حضور فقیر محتاج ہیں۔ بلاشبہ اللہ عز وجل غنی و حمید ہے، مالک الملک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں ۔ وہ خود فرماتا ہے:
تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَ تَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ۔
(قرآن مجيد، سورة ال عمران آیت : ٢٦، ب:٣)
جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے، جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔
(فتاوی شارح بخاری،ج:۱،ص:۱۲۹،کتاب العقائد،عقائد متعلقہ ذات و صفات الہی)
دوسری جگہ ارشاد فرماتےہیں کہ:
یہ صحیح ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے محتاج ہیں۔ ارشاد ہے: يَأْيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللهِ : وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدِ۔
یعنی:اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے
نیاز ستودہ صفات ہے۔
(قرآن مجید،پ:۲۲،آیت:۱۵،سورۃ فاطر)
اس عموم میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بھی داخل ہیں علاوہ ازیں اس کی دلیلیں ، اہل سنت کا بنیادی عقیدہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے کمالات عطائی ہیں ، اور ہر مُعْطى له مُعْطِی کامحتاج ہوتا ہے ۔ مگر عرف عام میں محتاج استخفاف کے لیے بولا جاتا ہے، اس لیے بلا ضرورت خواہ مخواہ یہ کہتے پھرنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محتاج ہیں۔ سخت نا پسندیدہ ہے ۔ بلکہ بہ نیت استخفاف ہو تو کفر۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کلکٹر پورے ضلع کا حاکم ہوتا ہے۔ لیکن وہ خود کمشنر کے ماتحت ہوتا ہے اور اس کا محتاج ۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ کلکٹر کیا مالک ہوگا وہ خود کمشنر کا محتاج ہے اس میں ضرور کلکٹر کی توہین ہے۔ اسی طرح وہابی جو کہتے پھرتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی کیا مدد فرمائیں گے وہ خود اللہ کے محتاج ہیں۔ اس میں بلا شبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے۔ اسی کو کہا گیا ہے :
“كلمة حق اريد به باطل ” کلمۂ حق بول کر باطل معنی مراد لیا ہے۔
(فتاوی شارح بخاری،ج:۱،ص:۳۶۷،کتاب العقائد،عقائد متعلقہ نبوت)
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند