کیا حضور نے کوئی وراثت چھوڑی؟
اگر یہ کہا جائے کہ حضور نے اپنی ظاہری حیات میں حضرت سیّدہ کو فدک نہیں دیا تھا تو ہم نے یہ تسلیم کر لیا لیکن جب و ہ حضور کی صاحبزادی تھیں تو فدک حضرت سیّدہ کو وراثت میں ضرور ملنا چاہئے تھا کہ ہر شخص اپنے باپ کی جائیداد کا وارث ہوتا ہے اور حضرت سیّدہ حضور کی وارث نہ ہوں یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہا درجہ کے فیاض تھے جو کچھ آتا تھا سب غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم فرما دیتے تھے۔ کچھ اپنے پاس باقی نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضور ایک بار نماز عصر پڑھ کر فوراً اٹھے اور نہایت تیزی کے ساتھ گھر تشریف لے گئے پھر علی الفور واپس آ گئے لوگوں کو تعجب ہوا تو فرمایا: مجھے خیال آیا کہ سونے کی ایک چیز گھر میں پڑی رہ گئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ رات ہو جائے اور وہ گھر میں پڑی رہ جائے اس لئے میں اسے خیرات کرنے کے لئے کہہ آیا ہوں۔
(رواہ البخاری، مشکوٰۃ ص ۱۶۶)
اور حدیث شریف میں ہے آخری بیماری میں حضور کی ملکیت میں چھ سات اشرفیاں تھیں۔ حضور نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایاکہ اسے خیرات کر یں مگر وہ مشغولیت کے سبب خیرات نہ کرسکیں تو حضور نے ان اشرفیوں کو منگا کر خیرات کر دیا اور فرمایا:
ماظن نبی اللّٰہ لولقی اللّٰہ عزوجل وھٰذہ عندہ
(رواہ احمد مشکوٰۃ ص ۱۶۷)
یعنی اللہ کا نبی خداتعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اشرفیاں اس کے قبضہ میں ہوں تو یہ مقام نبوت کے منافی ہے۔
(اشعۃ اللمعات جلد دوم ص ۴۸)
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنی ذاتی ملکیت میں کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں تو ایسی صورت میں وراثت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ وراثت اس چیز میں جاری ہوتی ہے جو مورث کی ملکیت ہو اور سرکار اقدس نے ایسا کوئی مال چھوڑا ہی نہیں‘ اور ازواج مطہرات جو اپنے حجروں کی مالک ہوئیں تو وہ بطور میراث ان کو نہیں ملے تھے بلکہ حضور نے اپنی ظاہری حیات میں ایک ایک حجرہ بنوا کر ان کو ہبہ کر دیا تھا اور اسی زمانہ میں انہوں نے اپنے اپنے حجروں پر قبضہ بھی کر لیا تھا اور ہبہ جب قبضہ کے ساتھ ہو تو ملکیت ثابت ہو جاتی ہے جیسے کہ حضور نے حضرت فاطمہ کے لئے بھی گھر بنوا کر ان کے قبضہ میں دے دیا تھا جو ان کی ملکیت تھا اور پھر فدک مال فئی سے تھا اسی لئے محدثین کرام فدک کی حدیث کو باب الفئی میں لائے ہیں اور فئی کسی کی ملکیت نہیں ہوتا اس کے مصارف کو خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں خود بیان فرمایا ہے:
مَآ اَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلَ۔
جو فئی دلایا اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے وہ اللہ اور رسول کا ہے‘ اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں ور مسافروں کے لئے ہے۔
(پ ۲۸ ع ۴)
اور مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد چہارم ص ۳۱۳ پر مُغرب سے ہے:
حکمہ ان یکون لکافۃ المسلمین۔
فئی کا حکم یہ ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے لئے ہے‘ اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’حکم فئی آنست کہ مرعامہ مسلمانان رامی باشد و دروے خمس وقسمت نیست و اختیار آں بدست آنحضرت ست۔‘‘ فئی کا حکم یہ ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے لئے ہے اس میں خمس و تقسیم نہیں ہے‘ اور اس کی تولیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے
(اشعۃ ج ۳‘ ص ۴۴۶)
معلوم ہوا مال فئی وقف ہوتا ہے کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی آمدنی کو قرآن کی تصریح کے مطابق اپنی ذات پر۔ ازواج مطہرات اور بنی ہاشم پر اورغریبوں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ فرما دیتے تھے جو اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ فدک کسی کی ملکیت نہیں تھا بلکہ وقف تھا اور مال وقف میں میراث جاری ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۹۴/۹۳)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند