کیا حضور کے قول کو حضرت عمر نے نہیں رد کیا؟
اس کے بارے مکمل مدلل و مفصل جواب ملاحظہ فرمائیں۔
ایک(۱) یہ کہنا غلط ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو رد کر دیا اس لئے کہ انہوں نے درد کی شدت میں حضور کے آرام و راحت کا خیال کیا کہ حضور محنت و مشقت میں نہ پڑیں اور اسے رد نہیں کہتے۔ ہر شخص اپنے عزیز بیمار کو محنت و مشقت میں پڑنے سے بچاتا ہے خاص کر بزرگ اگر کسی وقت شدت مرض میں مبتلا ہوتا ہے‘ اور حاضرین کے فائدہ کے لئے خود ہی کچھ اٹھانا چاہتا ہے تو کوئی بھی اسے گوارا نہیں کرتا یہی سب لوگوں میں معمول ہے۔ لہٰذا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم امت کے فائدے کے لئے مشقت میں پڑنا چاہتے ہیں تو خود لکھیں یا لکھوائیں بہرحال مضمون بتانا یا خود لکھنا شدت مرض میں تکلیف کا سبب ہو گا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ازراہ محبت گوارہ نہ کیا اور بہ لحاظ ادب حضور کو خطاب نہ کیا بلکہ اور لوگوں کو کتاب اللہ کے اشارہ سے ثابت کیا کہ حضور کو مشقت میں ڈالنے کی ضرورت نہیں تاکہ حضور کے کان مبارک تک یہ آواز پہنچے اور آپ جان لیں کہ شدت مرض میں ایسی مشقت اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
او راس معاملہ میں عقلمندوں کے نزدیک حقیقت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی باریک بینی ہے جو لائق صد تعریف ہے کہ تقریباً تین ماہ پہلے یہ آیت کریمہ نازل ہو چکی تھی۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ۔
آج کے دن میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور اپنی نعمت کو تمہارے اوپر تمام کر دیا۔
(پ ۶ ع ۵)
تو اس آیت کریمہ نے نسخ و تبدیل اور دین کے احکام میں کمی بیشی کے دروازے کو بالکل بند کر کے اس پر مہر لگا دی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ حسبکم کتاب اللہ یعنی اللہ کی کتاب تم کو کافی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ سمجھا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں کوئی ایسی نئی بات لکھوانے والے ہیں جو پہلے سے کتاب و شریعت میں نہیں آئی ہے تو آیت کریمہ:
: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ
ا جھٹلانا لازم آتا ہے‘ اور یہ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے محال ہے لہٰذا حضور کا مقصد یہ ہے کہ ان احکام کی تاکید فرمائیں جو پہلے مقرر فرما چکے ہیں تو شدت مرض میں حضور کو مشقت اٹھانے کی ضرورت نہیں بہتر ہے کہ وہ آرام فرمائیں ہم کو خداتعالیٰ کی کتاب اور اس کی تاکید کافی ہے‘ اور اس بات پر حدیث شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ گواہ ہے کہ
ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد غلب علیہ الوجع وعندکم القران حسبکم کتاب اللّٰہ۔
یشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درد کا غلبہ ہے‘ اور تمہارے پاس قرآن ہے وہی اللہ کی کتاب تم کو کافی ہے۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے باے میں یہ کہنا کہ انہوں نے حضور کی بات رد کر دی انتہائی نادانی و جہالت اور بغض و عداوت ہے کہ اس قسم کی مصلحت آمیز باتیں اور مشورے حضور و صحابہ کے درمیان اکثر ہوا کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس خصوص میں سب سے زیادہ ممتاز تھے کہ منافقوں پر نماز پڑھنے، ازواج مطہرات کو پردہ نشین کرنے، جنگ بدر کے قیدیوں کو قتل کرنے، مقام ابراہیم کو مصلے ٹھہرانے اور بشر منافق کے قتل وغیرہ جیسے معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عرض و مشورے کے مطابق وحی نازل ہوئی اور اکثر واقعات میں ان کی بات اللہ و رسول کی بارگاہ میں مقبول ہوئی اور اگر اس قسم کی مصلحت آمیز باتوں کے پیش کرنے کو حضور کی بات کا رد کرنا یا وحی کا ٹھکرانا قرار دیا جائے جیسا کہ رافضی لوگ کرتے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی کئی معاملات میں حضور کی بات کے رد کرنے اور وحی کے ٹھکرانے کا الزام عائد ہو جائے گا۔ اوّل یہ کہ بخاری شریف میں متعدد طریقوں سے مروی ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی و حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہما کے مکان پر رات کے وقت تشریف لے گئے ان کو خواب گاہ سے اٹھایاا ور نماز تہجد ادا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: قوما فصلیا۔ یعنی تم دونوں اٹھ کر نماز پڑھو اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
واللّٰہ لانصلی الا ماکتب اللّٰہ لنا
یعنی خدا کی قسم! ہم فرض نماز سے زیادہ نہیں پڑھیں گے‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر سے واپس ہو گئے اور فرمایا:
وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا‘
اور آدمی ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔
(پ ۱۵ ع ۲۰)
کیا اس واقعہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وحی ٹھکرانے والا کہا جائے گا۔ نہیں ہرگز نہیں اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ان کی ملامت نہ فرمائی۔ دوسرے یہ کہ صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جوصلح نامہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور کافروں کے درمیان لکھا جا رہا تھا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور کے نام کے ساتھ لفظ ’’رسول اللہ‘‘ لکھا تو مشرکین مکہ نے اس لفظ کے لکھنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ ہم اگر آپ کورسول اللہ مانتے تو پھر آپ سے لڑتے کیوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا: امح رسول اللّٰہ یعنی رسول اللہ کا لفظ مٹا دو‘ تو حضرت علی نے کہا: قسم خدا کی! ہم ہرگز نہیں مٹائیں گے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ ان کے ہاتھ سے لے کر خود مٹایا۔ کیا اس واقعہ میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضور کی بات رد کرنے والا اور وحی کو ٹھکرانے والا قرار دیا جائے گا؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ حددرجہ ان کو حضور سے محبت کرنے والا قرار دیا جائے گا تو پھر ازراہ محبت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درد کی شدت میں حضور کا مشقت میں پڑنا گوارا نہ فرمایا تو ان کو وحی کا ٹھکرانے والا کیوں قرار دیا جائے گا۔ اگر رافضی ایسی باتوں کو بھی پیغمبر کے قول کا رد کرنا اور وحی کا ٹھکرانا کہیں گے تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے اس لئے کہ رافضیوں کی معتبر کتابوں میں بھی اس قسم کے واقعات پائے جاتے ہیں جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل نہیں کیا جیسا کہ شریف مرتضیٰ نے جس کا لقب امامیہ کے نزدیک علم الہدی ہے اپنی کتاب ’’دررغرر‘‘ میں محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی اور انہوں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی ماں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی تہمت کے بارے میں لوگوں نے بہت باتیں کیں اس لئے ان کا چچاز اد بھائی ان سے کبھی کبھی ملنے کے لئے آیا کرتا تھا تو حضور نے حضرت علی سے فرمایا:
خذھٰذا السیف وانطلق فان وجدتہ عندھا فا قتلہ
یعنی اس تلوار کو لے کر جاؤ اور ماریہ کے پاس اگر اس مرد کو پاؤ تو قتل کر دو۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں حضور کے حکم کے مطابق اس مرد کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے جان لیا کہ میں اس کاقصد رکھتا ہوں تو اس نے میرے پاس آ کر کھجور کے درخت پر چڑھتے ہوئے اپنے آپ کو پیٹھ کے بل گرا دیا اور دونوں پاؤں کو اٹھا دیا تو میں نے دیکھا کہ وہ مجبوب ہے یعنی مقطوع الذکر والخصیتین ہے اس کے پاس مردوں
کے جیسا کچھ نہیں ہے تو میں نے اپنی تلوار میان میں کر لی اور واپس آ کر حضور سے اس کا سارا حال بیان کیا تو حضور نے فرمایا:
الحمد للہ الذی یصرف عنا الرجس اھل البیت۔
خدا پاک کا شکر ہے کہ وہ ہمارے جملہ اہل بیت کو گندگی سے بچاتا ہے۔
اور محمد بن بابویہ نے امالی میں اور دیلمی نے ’’ارشاد القلوب‘‘ میں روایت کی ہے:
ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اعطنی فاطمۃ سبعۃ دراھم وقال اعطیھا علیا ومربہ ان یشتری لاھل بیتہ طعاما فقد غلبھم الجوع فاعطتھا علیا وقالت ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امرک ان تبتاع لنا طعاما فاخذھا علی وخرج من بیتہ لیبتاع طعاما لاھل بیتہ فسمع رجلا یقول من یقرض الملی الوفی فاعطاہ الدر اھم
عنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو سات درہم عطا فرمائے اور حکم دیا کہ یہ درہم علی کو دے کر کہو کہ وہ اپنے اہل بیت کے واسطے کھانا خرید لائیں کہ ان پر بھوک غالب ہو رہی ہے تو حضرت فاطمہ نے وہ درم حضرت علی کو دیئے اور کہا: بے شک حضور نے حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے واسطے کھانا خرید لائیں تو حضرت علی وہ درم لے کر اپنے اہل بیت کے واسطے کھانا خریدنے کے لئے گھر سے نکلے تو راستے میں سنا ایک شخص کہتا ہے کہ کون ایسا آدمی ہے جو سچے وعدہ پر ہم کو قرض دے تو حضرت علی نے وہ درم اس کو دے دیئے۔ اس واقعہ میں حضور کے حکم کی مخالفت بھی ہے‘ اور غیر کے مال میں بلااجازت تصرف بھی اور اپنے اہل وعیال کے حق کا تلف کرنا بھی اور حضور کی اولاد کو بھوکا رکھ کر ان کو تکلیف پہنچانا بھی مگر یہ سب انہوں نے اللہ واسطے کیا اور ایثار کیا جو قابل تعریف و تحسین ہے۔ حضور کا حکم رد کرنا اور وحی کا ٹھکرانا نہیں ہے اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ ہمارے اس فعل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت فاطمہ زہراء اور حسنین سبھی راضی ہوں گے۔ رضی اللہ عنہم۔ ان تمام واقعات سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وحی الٰہی نہیں ہے۔ ورنہ لفظ رسول اللہ کے مٹانے‘ قبطی مرد کے قتل کرنے، کھانا خریدنے اور تہجد کی نماز پڑھنے کا حکم سب وحی الٰہی ہوتا، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر وحی الٰہی کے ٹھکرانے کا الزام عائد ہوتا اور جنگ تبوک کے موقع پر جبکہ حضور نے حضرت علی کو اہل و عیال میں رہنے کا حکم دیا تو ان کا یہ کہنا ہرگز نہ ہوتا۔
اتخلفنی فی النسآء والصبیان۔
یعنی کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ جاتے ہیں؟
بلکہ ہم یہاں تک کہتے ہیں کہ رافضی سنی دونوں کے نزدیک حکم الٰہی کے خلاف مصلحت کو پیش کرنا
اور مشقت کو ٹالنے کے لئے بار بار اصرار کرنا بھی وحی الٰہی کو ٹھکرانا نہیں۔ جیسا کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے نو بار خداتعالیٰ کی بارگاہ میں لوٹ لوٹ کر گئے اور عرض کیا: یا الٰہ العٰلمین میری امت اتنی نمازوں کا بوجھ نہ اٹھا سکے گی۔ اگر معاذ اللہ! رب العٰلمین کی یہ وحی کا رد کرنا اور ٹھکرانا ہوتا تو سیّد الانبیاء سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا صدور ہرگز نہ ہوتا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسا مشورہ نہ دیتے‘ اور قرآن مجید سورۂ شعراء میں ہے:
وَاِذْ نَادٰی رَبُّکَ مُوْسٰی اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ قَوْمَ فِرْعَوْنَ اَلَایَتَّقُوْنَ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنَ وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰی ہَارُوْنَ وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٍ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنَ قَالَ کَلَّا فَاذْھَبَا بِاٰیٰتِنَا اِنَّامَعَکُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ
(پ ۱۹ ع ۶)
اور یاد کرو! جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی کہ ظالم لوگوں کے پاس جاؤ جو فرعون کی قوم ہے کیا وہ نہیں ڈریں گے عرض کیا: اے میرے رب! میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے اور میرا سینہ تنگی کرتا ہے‘ اور میری زبان نہیں چلتی۔ لہٰذا تو ہارون کو بھی رسول کر اور اس قوم کا مجھ پر ایک الزام ہے تو میں ڈرتا ہوں کہیں مجھ کو قتل کر دیں‘ فرمایا: یوں نہیں تم دونوں میری نشانیاں لے کر جاؤ بیشک ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں۔
ان آیات مبارکہ سے بھی واضح ہو گیا کہ خداتعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں مصلحت کو پیش کرنا وحی الٰہی کا رد نہیں ہے۔ ورنہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں ہرگز اس کے مرتکب نہ ہوتے‘ اور پھر رافضی سنی دونوں کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ اللہ ورسول کا ہر حکم وجوب کامتقضی نہیں ہوتا بلکہ مستحب ہونے کا بھی احتمال رکھتا ہے جیسا کہ سنیوں کی کتاب ’’نور الانوار‘‘ اور رافضیوں کی کتاب ’’درر غرر‘‘ میں مذکور ہے۔ لہٰذا جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بعض حکم کو مستحب سمجھ کر اس پر عمل نہ کیا اور مورد الزام نہ ہوئے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضور کے حکم کو مستحب ٹھہرا کر درد کی شدت میں آپ کو مشقت میں ڈالنا ضروری نہ سمجھا تو وہ بھی مورد الزام نہ ہوئے۔
وھو تعالٰی اعلم۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱۱/۱۱۰/۱۰۹/۱۰۸/۱۰۷)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند