کیا حی الفلاح پر کھڑا ہونا رواجی ہے؟
مسئلہ: از محمد شوکت علی صدر بزم قادریؔ موضع کمہریا۔ وارانسی۔
اقامت کے وقت امام اور مقتدی سب بیٹھے رہتے ہیں اور حی علی الفلاح پڑ اٹھتے ہیں جس کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں۔ ایک مفتی صاحب نے فتویٰ دیا کہ شروع تکبیر میں کھڑا رہنا چاہئے ورنہ صفیں کس طرح درست ہوں گی اور حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا رواجی لکھا ہے‘ تو صحیح مسئلہ کیا ہے؟ بحوالہ تحریر فرمائیں۔
الجواب: اقامت کے وقت امام اور مقتدی سب کو بیٹھے رہنے کا حکم ہے۔ کھڑا رہنا مکروہ و منع ہے پھر جب اقامت کہنے والا حی علی الفلاح پر پہنچے تو اٹھیں اور صفوں کو درست کریں جیسا کہ فقہائے کرام اور شارحین حدیث کے اقوال سے ثابت ہے۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۵۳ میں مضمرات سے ہے:
اذا دخل الرجل عندالاقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن قولہ حی علی الفلاح
یعنی اگر کوئی شخص تکبیر کے وقت آیا تو اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے اور جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے تو اس وقت کھڑا ہو‘ اور درمختار میں ہے: دخل المسجد والمؤذن یقیم قعد یعنی جو شخص تکبیر کہے جانے کے وقت مسجد میں آئے تو وہ بیٹھ جائے اسی عبارت کے تحت شامی جلد اوّل ص ۲۶۸ میں ہے:
یکرہ لہ الانتظار قائماً ولکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن حی علی الفلاح
یعنی اس کے لئے کھڑا ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ بیٹھ جائے پھر جب موذن حی علی الفلاح کہے تو اٹھے‘ اور مولوی عبدالحئی صاحب فرنگی محلی عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ جلد اوّل مجیدی ص ۱۳۶ میں لکھتے ہیں:
اذا دخل المسجد یکرہ لہ انتظار الصلوۃ قائماً بل یجلس موضعا ثم یقوم عند حی علی الفلاح۔
یعنی جو شخص مسجد میں داخل ہو اسے کھڑے ہو کر نماز کا انتظار کرنا مکروہ ہے بلکہ وہ کسی جگہ بیٹھ جائے پھر حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہو اور طحطاوی علیٰ مراقی الفلاح شرح نور الایضاع مطبوعہ قسطنطنیہ ص ۱۵۱ میں ہے:
اذا اخذ المؤذن فی الاقامۃ ودخل رجل المسجد فانہ یقعد ولا ینتظرقائما فانہ مکروہ کما فی المضمرات قھستانی ویفھم منہ کراھۃ القیام ابتداء الاقامۃ والناس عنہ غافلون۔
یعنی مکبر جب اقامت کہنے لگے اور کوئی شخص مسجد میں آئے تو وہ بیٹھ جائے کھڑے ہو کر انتظار نہ کرے اس لئے کہ تکبیر کے وقت کھڑا رہنا مکروہ ہے جیسا کہ مضمرات قہستانی میں ہے‘ اور اس حکم سے سمجھا جاتا ہے کہ شروع اقامت میں کھڑا ہو جانا مکروہ ہے‘ اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ لہٰذا جو لوگ مسجد میں موجود ہیں اقامت کے وقت بیٹھے رہیں اور جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے تو اٹھیں اور یہی حکم امام کے لئے بھی ہے جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ۵۳ میں ہے: یقوم الامام والقوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ وھو الصحیح۔ یعنی علمائے ثلاثہ حضرت امام اعظم، امام ابویوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک امام و مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب اقامت کہنے والا حی علی الفلاح کہے‘ اور یہی صحیح ہے‘ اور درمختار مع شامی جلد اوّل ص ۳۲۲ میں ہے: والقیام لامام ومؤتم حین قیل حی علی الفلاح یعنی امام و مقتدی کا حی علی الفلاح کے وقت کھڑا ہونا سنت مستحبہ ہے‘ اور شرح وقایہ مجیدی جلد اوّل ص ۱۳۶ میں ہے: یقوم الامام والقوم عند حی علی الصلٰوۃ یعنی امام و مقتدی حی علی الصلاۃ کے وقت کھڑے ہوں‘ اور مراقی الفلاح میں ہے: قیام القوم والامام ان کان حاضرا بقرب المحراب حین قیل ای وقت قول المقیم حی علی الفلاح یعنی امام اگر محراب کے پاس حاضر ہو تو امام اور مقتدری کا مکبر کے حی علی الفلاح کہتے وقت کھڑا ہونا نماز کے آداب میں سے ہے‘ اور حدیث شریف کی مشہور کتاب مؤطا امام محمد باب ’’تسویۃ الصف‘‘ ص ۸۸ میں ہے:
قال محمد ینبغی للقوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح ان یقیموا الی الصلوۃ فیصفوا ویسووالصفوف۔
یعنی محرر مذہب حنفی حضرت امام محمد شیبانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تکبیر کہنے والا جب حی علی الفلاح پر پہنچے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ نماز کے لئے کھڑے ہوں اورپھر صف بندی کرتے ہوئے صفوں کو سیدھی کریں‘ اور قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی ’’مالابدمنہ‘‘ ص ۴۴ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’نزد حی علی الصلاۃ امام برخیزد‘‘ یعنی امام حی علی الفلاح کے وقت اٹھے ان تمام حوالہ جات سے واضح ہو گیا کہ امام و مقتدی جو لوگ مسجد میں موجود ہیں سب اقامت کے وقت بیٹھے رہیں جب مکبر حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح پر پہنچے تو اٹھیں۔ لہٰذا جس مفتی نے یہ فتویٰ دیا کہ شروع تکبیر میں کھڑا رہنا چاہئے اور یہ لکھا کہ حی علی الصلاۃ پر کھڑا ہونا رواجی ہے وہ نام کا مفتی ہے حقیقت میں مفتی نہیں ہے ورنہ یہ مسئلہ جبکہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے اسے اس کی ضرور خبر ہوتی۔ دیوبندی جو عام طور پر اس مسئلہ کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پیشوا مولوی کرامت علی جونپوری نے اپنی کتاب مفتاح الجنہ ص ۳۳ پر لکھا ہے کہ جب اقامت میں حی علی الصلاۃ کہے تب امام اور سب لوگ کھڑے ہو جائیں یہاں تک کہ دیوبندیوں کی کتاب راہِ نجات ص ۱۴ میں ہے: حی علی الصلاۃ کے وقت امام اٹھے۔ رہا یہ سوال کہ صفیں کب درست ہوں گی تو اس کا جواب حدیث شریف کی کتاب مؤطا امام محمد کے حوالہ سے اوپر گزرا کہ حی علی الصلاۃ پر کھڑے ہونے کے بعد صفیں سیدھی کریں اس مسئلہ پر مزید حوالہ جاننے کے لئے ہمارا رسالہ ’’محققانہ فیصلہ‘‘ پڑھیں۔ وھو تعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۱۰؍ ربیع الاول ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۹۱/۱۹۰/۱۸۹)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند