گھوڑے کی شکل کا دلدل اٹھانا کیسا ہے؟
رسول پاک کے دفن کفن کو بھول گئے کہنا کیسا ہے؟
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن دفن کی ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر تھی؟
مسئلہ: از شمشیر احمد صدر انجمن فروغ اسلام کریم الدین پور گھوسی اعظم گڑھ
(۱) چند سنی آدمیوں نے کاٹھ کا ایک پتلا گھوڑے کی شکل کا بنایا‘ اور اسے سہروں سے سجا کر دلدل کے نام پہ اٹھایا اور نوحہ و ماتم کے ساتھ پورے گاؤں کا چکر لگایا۔
ازروئے شرع یہ فعل کیسا ہے؟ اور ایسا کرنے والوں پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ جبکہ دیکھنے والا برجستہ پکار اٹھتا ہے کہ یہ بت ہے‘ اور یہ فعل بت پرستی ہے۔
(۲) محرم الحرام کی چھ تاریخ کو ہمارے یہاں جھولا اٹھایا گیا جس میں کچھ رافضی نوحہ خوانی کے لئے آئے اور اس میں ان کے ہمراہ کچھ سنی حضرات بھی پڑھ رہے تھے‘ رافضیوں نے یہ شعر پڑھا:
سبھی کو یاد خلافت تو رہ گئی لیکن
رسول پاک کے دفن و کفن کو بھول گئے
اور سنی حضرات نے بھی روافض کے ہمراہ اس شعر کو بالتکرار پڑھا‘ تو اب شریعت کا ان پڑھنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
حکم شرعی سے آگاہ فرمائیں۔
الجواب:
اول(۱) اس جعلی و اخترائی دُلدل کا مجسمہ بنانے والے‘ بنوانے والے‘ مجسمہ مذکورہ کو دلدل کے نام پر اٹھانے والے‘ اور اس کے دلدلی میلہ میں شرکت کرنے والے سب کے سب شریعت اسلامیہ کی رو سے گنہ گار، مستحق عذاب نار، فاسق معلن اور مردود الشہادۃ ہو گئے۔ ان سب پر فرض ہے کہ علی الاعلان توبہ کریں اور رب تبارک و تعالیٰ سے معافی مانگیں، اور اپنے گناہ پر نادم ہوں ورنہ دوسرے مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ ان مرتکبین سے میل جول‘ اٹھنا بیٹھنا بند کر دیں۔ وھو اعلم بالصواب۔
دوم(۲) اس خبیث شعر میں حضرات صحابہ کرام بالخصوص خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین پر کھلے الفاظ میں طعن و تشنیع ہے۔ علامہ شہاب الدین خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: ومن یکون بطعن فی معاویۃ فذاک من کلاب الھاویہ یعنی جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر زبان طعن دراز کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے
(احکام شریعت حصہ اوّل ص ۹۹)
اور اس ملعون شعر میں سبھی کہہ کر کسی صحابی کو نہیں چھوڑا سب پر زبان طعن دراز کی ہے‘ تو جب تنہا حضرت امیر معاویہ پر زبان طعن دراز کرنے والا جہنمی کتا ہو جاتا ہے‘ تو صحابہ کرام پر زبان طعن دراز کرنے والا کس قدر گمراہ و بددین ہو گا۔ الحاصل اس مردود شعر کے پڑھنے والے، اس پر راضی رہنے والے سب کے سب گمراہ ہو گئے ان پر فرض ہے کہ توبہ کر کے تجدید ایمان کریں اور بیوی والے ہوں تو تجدید نکاح بھی کریں‘ اور اگر بیعت والے ہوں تو تجدید بیعت بھی کریں‘ اور اگر وہ لوگ ایسا نہ کریں تو تمام مسلمان ان سے قطع تعلق کریں۔ رہا شعر مذکور تو وہ جہالت کا مردہ ہے۔ کفن و دفن میں تاخیر کا سبب یاد خلافت نہیں بلکہ جمہور کے قول کے مطابق یہ امر ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ مبارکہ حجرۂ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں تھا جہاں اب مزار انور ہے اس سے باہر نہیں لے جانا تھا۔ چھوٹا سا حجرہ اور تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس نماز سے مشرف ہونا تھا۔ ایک جماعت آتی پڑھتی اور باہر جاتی پھر دوسری جماعت آتی یوں یہ سلسلہ تیسرے روز ختم ہوا۔ اگر اس نماز اقدس سے فراغت کے لئے تین برس درکار ہوتا تو جنازۂ اقدس تین برس یونہی رکھا رہتا۔ یہ ہے دفن اقدس میں تارخیر کا سبب اصلی‘ اور اگر ابلیس کے نزدیک تاریخ دفن کا سبب امر خلافت کی یاد اور لالچ ہے تو سب سے سخت تر الزام حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم پر عائد ہو گا کہ اور حضرات تو معاذ اللہ تعالیٰ حصول خلافت کی لالچ میں پڑ کر کفن و دفن کو بھول گئے لیکن آپ کو تو خلافت کی لالچ نہ تھی تو آپ کیوں بھول گئے پھر کفن ودفن کا کام گھر والوں ہی سے متعلق ہوتا ہے تو آپ کیوں تین دن تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ گئے کم از کم آپ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن و دفن کی یہ آخری خدمت بھی بجا لائے ہوتے‘ مگر چونکہ یہ الزام و اعتراض مردود و ملعون ہے اس لئے ثابت ہو گیا کہ تاخیر دفن کا سبب وہی ہے جو ہم نے بیان کیا افسوس کہ دین و ایمان سنیت و اسلام جیسی عظیم الشان جلیل القدر نعمت کی لوگوں کے دلوں میں عزت و قدر نہیں۔ اس لئے بددینوں اور گمراہوں کی صحبت اختیار کر کے بعض مسلمان اپنا دین و ایمان برباد کر رہے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ تعالیٰ۔ مولیٰ تعالیٰ مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت فرمائے اور بددینوں‘ گمراہوں کے ساتھ میل جول سے مسلمانوں کو بچائے۔
آمین۔ بجاہ حبیبک سیّد المرسلین علیہ وعلٰی الہ اکرم الصلاۃ وافضل والتسلیم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۱؍ من صفر المظفر ۱۳۸۶ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۲۹/۱۲۸/۱۲۷)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند