یہ لکھنا کہ اس تحریر کو طلاق نامہ سمجھا جائے بیکار ہے؟
مسئلہ: از غفور علی ساکن کڑی ضلع بستی
بکر نے اپنی بیوی کے بارے میں یہ تحریری لکھی کہ اگر میں تم کو کسی قسم کی تکلیف دوں یعنی کھانے اور کپڑے میں یا میرے اندر نامردی کی شکایت پائی جاوے تو یہ اقرار نامہ نہ سمجھا جاوے بلکہ طلاق نامہ سمجھا جائے گا اس میں مجھے کوئی عذرنہیں ہے تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اگر ان شرطوں میں سے کوئی بھی شرط پائی جاوے تو کون سی طلاق پڑے گی؟
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔ یہ تحریر کہ اگر میں تم کو کسی قسم کی تکلیف دوں… الی… تویہ اقرار نامہ نہ سمجھا جاوے بلکہ طلاق نامہ سمجھا جائے گا۔ بیکار، بے اعتبار ہے خانیہ میں ہے۔
ولوقال الزوج دادہ انگار اوقال کردہ انگار لایقع الطلاق وان نوی کانہ قال لھا بالعربیہ احسبی انک طالق وان قال ذلک لایقع وان نویٰ۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۰؍ رجب ۱۳۸۷ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱۶)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند